Tuesday, February 24, 2015

سپاہی لال حسین

سپاہی لال حسین
اور ان کے ساتھیوں کی سچی کہانیاں
جنگِ عظیم دوم کے سپاہی لال حسین نیوبرٹش جزیرے کی باتیں سناتے تھے یہ مشرقی ایشیا میں واقع ہے۔ جاپان کے قیدی وہیں رہے۔ جاپانی زبان کا ان کے پاس کافی علم تھا اور روانی سے بولتے تھے۔ کئی دفعہ میرے گھر آئے اور جاپانیوں کی قید میں جو وقت گزارا تھا اس کے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔ ایک روز انھوں نے ایک رونگٹے کھڑے کرنے والا واقعہ سنایا۔ کہنے لگے ہم قیدی تھے اور جاپانی ہم سے بیگار لیتے تھے۔ کھانے کے لیے خوراک بھی ناکافی اور گھٹیا ہوتی تھی اس لیے بعض جوان بیمار پڑ جاتے تھے۔ ہمارا ایک ساتھی شدید بیمار ہوگیا۔ ہم قیدیوں نے جاپانی سنتری کی توجہ اپنے بیمار ساتھی کی طرف دلائی اور دوائی کے لیے التجا کی۔ سنتری دوائی کی ایک شیشی لے آیا دوا جونہی بیمار کے منہ میں انڈیلی اس کا کلیجہ پھٹ کر باہر آگیا۔ ہم قیدیوں کو اپنے قیدی ساتھی کی اس تکلیف دہ موت کا بہت افسوس ہوا۔ دراصل سنتری نے ہمارے ساتھی کو دوائی کے بجائے تیز اب پلا دیا تھا۔ سب قیدیوں نے مجھے کہا کہ تم جاپانی زبان جانتے ہو جب جاپانی فوج کا وہ افسر آئے گاجو روزانہ قیدیوں کو دیکھتا ہے اس سے بات کرنا۔ قیدی کی لاش اُٹھانے سے پہلے ہی وہ افسر ہمیں آتا ہوا دکھائی دیا۔ میں اور باقی قیدی لاش کے پاس کھڑے ہوگئے۔ وہ ہمارے پاس آیا، مردہ قیدی کو دیکھ کر اس نے پوچھا اسے کیا ہوا ہے؟ میں نے جاپانی
زبان میں اسے ساری روداد سنائی۔ اس نے سنتری کو طلب کیا اس سے پوچھ گچھ کی، پھر اپنی کمر میں اُڑسا ہوا پستول نکالا اور سب قیدیوں کے سامنے جاپانی سنتری کو گولی مار کر موت کی نیند سلا دیا۔ اس نے غصے میں کہا تمھیں قیدیوں کی حفاظت کے لیے رکھا تھا نہ کہ ان کی جان لینے کے لیے۔ تم نے جو غیر انسانی کام کیا ہے اس کی سزا یہی ہے۔ افسر کے اس فیصلے پر ہم جو دکھ سے بھرے ہوئے تھے، بہت مطمئن ہوئے اور پکار اُٹھے کہ اسے انصاف کہتے ہیں۔
توپ کا گولہ اپنی ہی فوج پر جا گِرا
بابا جی بلوچ خان توپچی تھے۔ ایک دن میں نے ان سے کہا کہ جنگِ عظیم دوم کا کوئی واقعہ سنائیے۔ ایک مختصر سا واقعہ سناتے ہوئے بولے۔ میں توپچی تھا۔ انگریز آفیسر نے جاپانیوں پر گولہ باری کا حکم دیا۔ میں نے اپنی توپ کے ساتھ لگے آلے کے زاویے کو دشمن پر گولہ باری کے لیے  فکس کیا اور گولہ فائر کر دیا۔ پہلا گولہ اپنی ہی فوج کے اگلے مورچوں پر جا گرا۔ مجھے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس لیے فوراً توپ کا زاویہ تبدیل کر دیا۔ انگریزآفیسر دوڑتے ہوئے آئے۔ اس وقت ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ تمام توپچیوں کو گولہ باری روکنے کا حکم ہوا۔ انکوائری ہوئی۔ میرا خوف سے برا حال تھا۔ دعائیں مانگ مانگ کر اللہ کو پکارا کہ  بے بس ہوں۔ غلطی ہوگئی ہے۔ انگریز آفیسر نے یہ رزلٹ نکالا کہ بارش کی وجہ سے گولہ مطلوبہ رینج سے پہلے گر گیا میں بے قصور ثابت ہواکہ اس طرح اللہ نے مہربانی کی اور میں کورٹ مارشل سے بچ گیا۔ ورنہ بچنے کی کوئی صورت ہی نہیں تھی۔
چند منٹ کی دیر
حاجی زرداد بھی جنگِ عظیم دوم کے توپچی تھے۔  انھوں نے واقعہ سنایا کہ توپ میں گولے لوڈ کر کے ہم جاپانیوں پر گولہ باری کر رہے تھے کہ لانگری آگیا اور مجھے اور میرے ساتھیوں سے کہنے لگاکہ کھانا تیار ہے فوراًآ کر کھالو۔ میں نے کہا تم چلو، چند گولے رہ گئے ہیں، فائر کرکے کھانا کھانے آتا ہوں۔ جب گولے فائر کرکے لانگری کی طرف چلنے کا ارادہ کیا اسی وقت جاپانیوں کا گولہ آ کر لانگری کے کیمپ پر گرا۔ دیگیں لانگری سمیت اُڑ گئیں۔ سچ ہے جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ چند منٹ کی بات تھی بھوک کے ساتھ ساتھ ہمارے بھی پرخچے اُڑ جانے تھے۔
جاپانی فوج کا کیمو فلاج
بابا سمندر خان جنگ عظیم کے نامور سپاہی تھے انھوں نے بتایا کہ ہم برما کے محاذ پر جاپانیوں پر ایک بڑے حملے کی تیاری کر رہے تھے، کیونکہ وہ مشرقی ایشیا کو روندتے ہوئے ہندوستان تک آ پہنچے تھے۔ اتحادی فوج میں برِٹش انڈیا آرمی، رائل آرمی، آسٹریلین آرمی اور امریکن آرمی شامل تھی۔ امریکن آرمی کے پاس اُس وقت کے جدید ترین شرمن ٹینک تھے۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں۔ کئی دن کی تیاری کے بعد ایک صبح اتحادیوں نے حملہ کیا۔ حیرانی یہ ہوئی کہ جاپانیوں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ ہوئی نہ فائر ہوا۔ ہم فائر اور گولہ باری کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ جاپانی مقبوضہ علاقے کے دیہات کے لوگ مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور سفید چادریں لہرانا شروع کر دیں۔ انگریز کمانڈر نے صورتِ حال دیکھ کر فائر بند کرنے کا حکم دیا۔ کچھ فوجی جوان صورتِ حال معلوم کرنے مقبوضہ دیہات میں بھیجے گئے تو انھوں نے واپس آ کر اطلاع دی کہ جاپانی رات ہی کو علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ بہرحال انگریز کمانڈر نے دوبارہ پیش قدمی کا حکم دیا۔ پورا دن پیش قدمی کے بعد شام کو اتحادیوں کے جنگی جہاز بھی پورا دن جاپانیوں کو تلاش کرتے رہے۔ دوسرے دن صبح بے خبری میں، جاپانیوں نے ہم پر اچانک حملہ کر دیا۔ سب سے پہلے امریکن فوجی اپنے جدید ترین شرمن ٹینک چھوڑ کر بھاگے۔ ہمارا بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا۔ جاپانیوں نے ہمیں قیدی بنالیا۔ ہماری یونٹ کے ایک افسر کے پاس فائلیں تھیں۔ جاپانی اس کی فائلوں پر مشین گن کے برسٹ مارتے، کاغذ ہوا میں دور تک اُڑاتے اور لطف اندوز ہوتے۔ وہ افسر بعد میں پاکستان آرمی میں جنرل تک پہنچا۔ ہم سب حیران تھے کہ جاپانی اچانک کہاں سے آگئے۔ بعد میں پتا چلا کہ اتحادی فوجیں جاپانیوں کے مورچوں کے اوپر سے گزر کر آئی تھیں جو انتہائی خفیہ تھے اور زیرِ زمین تھے۔ اتحادیوں کو خبر تک نہ ہوئی۔ ان مورچوں کا منہ عموداً کھلتا تھا اور زمین کے اندر لمبائی کے رُخ افقی تھے جس میں پوری پلاٹون سماجاتی تھی۔ منہ بالکل چھوٹا سا تھا جو انھوں نے مکمل طور پر  کیمو فلاج کر رکھا تھا۔ امریکا اگر ایٹم بم نہ استعمال کرتا تو جنگ عظیم دوم کا فیصلہ مختلف ہوتا۔ شاید دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ جرمنی مصر تک پہنچ گیا تھا اور جاپان ہندوستان تک اور انگریز فوجوں کے لیے اسے روکنا مشکل ہوچکا تھا۔

مچھلی کون سی بہتر ہے؟

مچھلی کون سی بہتر ہے؟

ہمارے معاشرے میں ادھورے سچ کی بہت اہمیت ہو چکی ۔ نیز ہم خود کو تکلیف سے نہیں گزارتے کہ پورا سچ معلوم کر سکیں۔ مثال کے طور پر جونہی امریکی و یورپی میڈیا نے مچھلی کے فوائد بتانا شروع کیے، ہم نے بھی دکانوں کا رخ کر لیا۔ دل کے مریضوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ مچھلی دل کے لیے بہترین غذا ہے۔ اب بھلا کون اپنے دماغ کو غلطاں کرتا پھرے کہ سائنس دانوں نے جس مچھلی کی تعریف کی ہے کیا یہ وہی ہے؟ اور جس طریقے سے پکانے کا کہا ہے، کیا یہ اسی طرح پکائی گئی ؟
مچھلی کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے اومیگا ۳ کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس طرز کی چکنائی دل کی شریانوں میں لوتھڑے نہیں بننے دیتی اور خون پتلا رکھتی ہے۔ پہلے سے بنے لوتھڑے یا تھکے نرم کر کے توڑ دیتی ہے۔ ہر مہینے محض دوبار مچھلی کھانے سے اچانک ہارٹ فیل ہونے کے امکانات ۵۰فیصد کم ہو جاتے ہیں۔ دل کے علاوہ اومیگا تھری دماغ، آنکھوں، جلد اور معدے و آنتوں کے لیے بھی نعمت ہے۔ یہ چکنائی خون میں کولیسٹرول کم کرتی، ذیابیطس قسم۲ کو روکتی اور زندگی کا صحت مند دورانیہ لمبا کرتی ہے۔
مندرجہ بالا تمام باتیں درست ہیں۔ لیکن کبھی آپ نے غور کیا، ذکر تو مچھلی کا ہو رہا ہوتا ہے مگر ترغیب اومیگاتھری ۵۰۰ملی گرام روزانہ لینے کی دی جا رہی ہے؟ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ چکنائی صرف سائمن، کاڈ، سارڈین جیسی سمندری مچھلیوں کی چربی میں ملتی ہے۔ اب جونہی ہم ان خصوصی مچھلیوں کی طرف نگاہ دوڑائیں تو پتا چلتا ہے، یہ تو پاکستان میں دستیاب ہی نہیں۔ اب کیا کریں؟ پس وہی کریں جو مغربی ملٹی نیشنل کمپنیاں چاہتی ہیں یعنی کے ان کے بنائے مہنگے فوڈ سپلی منٹ استعمال کریں جن میں مندرجہ بالا مچھلیوںکا تیل بھرا ہے۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ صحت کی خوبصورت داستان کا انجام دکانداری پر ہوتا ہے۔
اور ہم ہیں کہ بازار میں گھٹیا ترین گھی یا استعمال شدہ تیل میں تلی گئی نہ تو سمندری نہ دریائی بلکہ صرف فارمی مچھلیاںکھا کر جیب ہلکی کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اومیگا۳ چکنائی حاصل ہو گئی۔
قارئین کرام ذہن میں رکھیے، جتنے گہرے سمندر کی مچھلی ہو، اتنی ہی اس میں چربی زیادہ ملے گی۔ یہی چربی اومیگا تھری کی حامل ہے۔ سمندر کی بالائی اور درمیانی سطح میں پائی جانے والی مچھلیوں میں چربی کم ہوتی ہے۔ لہٰذا اومیگا تھری بھی کم! نیز ان میں پارہ (مرکری) اور سیسہ (لیڈ) بھی زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا بیماریاں بھی زیادہ۔ اگر سمندری مچھلی نہیں مل رہی، تو دریائی ہی سہی،یہ سب سے بہترین ہے۔ تازہ پانی کے باعث اس میں آلائش بھی کم ہوتی ہے اور غذائیت سمندری مچھلی جیسی۔ صرف اومیگا تھری نہیں ہوتا مگر باقی خوبیاں موجود ہیں مثلاً اعلیٰ درجہ کی پروٹین! معیار کے لحاظ سے سب سے کم تر فارمی مچھلی ہے۔ کیا اچار مفید ہے؟
برصغیر پاک و ہند کے علاوہ دنیابھر میں صدیوں سے اچار دستر خوان کی زینت بن رہا ہے۔ اچار بنانے کے کئی طریقوں میں زیادہ مستعمل تیل میں کچی سبزیوں کا ڈالنا، پانی میں مسالہ جات ملا کر سبزیاں و پھل ملانا یا سرکہ کے اندر پھول گوبھی، پیاز یا لہسن وغیرہ کا اچار بنانا وغیرہ شامل ہیں۔ تینوں طرح کے اچار میں ہم جو بھی سبزی و پھل، ڈالیں، ان کے غذائی اجزا کسی حد تک ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس کا انحصار تین باتوں پر ہوتا ہے: اوّل اچار ڈالنے کے لیے کس طرح کا مائع (تیل، پانی، سرکہ) استعمال کیا گیا۔ دوم اس میں سبزیاں وغیرہ کتنے عرصے تک ڈوبی رہیں اور سوم اچار میں کھٹاس ڈالی گئی یا مٹھاس؟
جہاں تک مائعات کی قسم کا تعلق ہے، تو پانی میں سبزیوں اور پھلوں کے وٹامن سی اور بی اس میں گھل جاتے ہیں۔ تیل میں سبزیوں سے وٹامن اے، ڈی، ای اور کے نکل کر اس میں جذب ہوتے ہیں۔ سرکے میں موجود تیزاب سبزیوں اور پھلوں میں موجود پروٹین اور معدنیات کی توڑ پھوڑ کرتا ہے۔ لہٰذا اچار کی مدت جتنی زیادہ ہو، تمام غذائی اجزا کا نقصان بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا۔
بالفاظ دیگر کچی سبزیوں اور پھلوں میں وٹامن، معدنیات اور لحمیات کی مقدار کسی صورت اچار میں برقرار نہیں رہ سکتی۔ مندربالا غذائی اجزا کے علاوہ حرارے (توانائی) بھی خاصی مقدار میں ضائع ہوتے ہیں۔ پس ہم اچار کی شکل میں جو کچھ کھا رہے ہیں، وہ صرف ذائقہ دیتا ہے غذائیت نہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ مسالہ جات کے زائد استعمال سے بلڈپریشر زیادہ ہو جائے۔ یا پھر میٹھے اچار (مثلاً پھلوں وغیرہ) سے ذیابیطس چمٹنے کا خطرہ رہتا ہے۔
اچار کا ایک فائدہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ اس میں پھل و سبزیاں چھلکوں سمیت ڈالی جاتی ہیں۔ لہٰذا معدنیات و وٹامن کا خزانہ عموماً پکی سبزیوں سے زیادہ ہوتا ہے بشرطیکہ اچار زیادہ پرانا نہ ہو۔ چونکہ سبزیوں، پھلوں پر سپرے کا اثر بھی چھلکے پر زیادہ ہوتا ہے لہٰذا اچار کے مائعات وقت کے ساتھ ساتھ اس کا اثر زائل کر دیتے ہیں۔ ذہن میں رکھیے کہ مربے اور چٹنیاں وغیرہ بھی اچار ہی کا حصہ ہیں۔ کیا مٹی کی ہنڈیا پریشر ککر سے بہتر ہے؟
غذا کے اندر غذائیت (Nutrition) بشکل پروٹین ، چکنائی، نشاستہ، وٹامن، معدنیات اور پانی موجود ہوتی ہے۔ کھانا پکانے کے دوران یہ غذائیات ضائع ہونے کا انحصار چھے عوامل پر ہے: بلند درجہ حرارت، طویل عرصے تک حرارت دینا، روشنی، ہوا، پانی میں بھگونا اور کھیت یا میں پکنے کے دوران کا وقفہ۔ بعض غذائوں پر سارے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔
پریشر ککر استعمال کرنے کا مقصد وقت بچانا ہے۔ اس لیے بلند درجہ حرارت میں کھانا پکایا جاتا ہے۔ مٹی کی ہنڈیا کے پیچھے مقصد کھانے کا ذائقہ بہتر بنانا ہے۔ لہٰذا کم درجہ حرارت پر دیر تک کھانا پکایا جاتا ہے۔ لیکن سوال اگر غذائیت بچانا ہے، تو دونوں طریقے غلط ہیں کیونکہ تیز درجہ حرارت اور براہ راست غذا کا پریشر ککر کی دھاتی دیوارسے اتصال غذائی اجزا کی تباہی کا باعث بنتا ہے جن میں پروٹین خصوصاً لائسین (Lysine) شامل ہے۔ کم درجہ حرارت مگر مسلسل ملنے سے بھی غذائی اجزا کا اسی طرح نقصان ہوتا ہے جیسا پریشر ککر میں۔ ہاں ہنڈیا سے ذائقے میں انفرادیت ملتی ہے جو پریشر ککر سے لینی ذرا مشکل ہے۔
قارئین کو شاید عجیب لگے مگر حقیقت یہ ہے، اگر مٹر کو ڈیڑھ گھنٹے تک ۶۶ڈگری سینٹی گریڈ تک پکایا جائے، تو ۲۰فیصد لائسین ضائع ہوتی ہے۔ مگر اسی درجہ حرارت پر ڈھائی گھنٹے پکانے سے چالیس فیصد ضائع ہو جاتی ہے۔ ہمارا خیال ہے، لائسین جیسے امائنو ایسڈ اور دیگر وٹامن طویل عرصہ کم درجہ حرارت پر پکانے سے تقریباً تمام ضائع ہو سکتے ہیں۔
ہنڈیا پر آہستہ کھانا پکنے کا تب ہی فائدہ ہے کہ اس پر ڈھکن رکھا جائے۔ دراصل کئی غذائی اجزا کم درجہ حرارت پر غذا سے جدا تو ہو جاتے ہیں مگر ڈھکن موجود ہونے کے باعث شوربے (یا پانی) میں ہی موجود رہتے ہیں۔ پس غذائیت کے حوالے سے دیکھا جائے، تو ہنڈیا اور ککر میں خاص فرق نہیں۔ ہاں ذائقے کے لحاظ سے ہنڈیا قدرے بہتر ہے۔ لیکن صرف ان لوگوں کے لیے جو ہنڈیا کے ذائقے سے واقف ہوں!

Monday, February 23, 2015

مونگ پھلی

مونگ پھلی


اللہ تعالیٰ نے انسان کو تندرست رکھنے کی خاطر بے شمار پھل اور میوہ جات پیدا فرمائے۔ مونگ پھلی بھی ان میںسے ایک ہے۔ بھنی ہوئی گرم گرم مونگ پھلی لوگ بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔ یہ عوام و خواص، نوجوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں سب کا دل پسند میوہ ہے۔ اسے غریب کا بادام بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں بہ کثرت پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک بیل کا پھل ہے۔ اسے مغز بادام کی طرح شوق سے کھایا جاتا ہے۔ سستا اور خشک میوہ ہے۔ آج کل اس کا موسم ہے۔ اس کا تیل بہت استعمال ہوتا ہے۔
مونگ پھلی کا آبائی وطن جنوبی امریکا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے ایک ہزار سال پہلے آثار قدیمہ کے ماہرین نے پیرو کے ساحلی علاقوں کی کھدائی کی، تو انھیں وہاں مونگ پھلی کے بھی آثار ملے۔ آج برصغیر پاک و ہند میں دنیا بھر کی مونگ پھلی کی پیداوار کا ۴۰فیصد حصہ پیدا ہوتا ہے۔
اس کی پھلیاں زمین کے اندر پیدا ہوتی ہیں۔ پھر بھی اس کا شمار مغز اور بیج کے زمرے میں ہوتا ہے۔
مونگ پھلی کی کاشت سالانہ بنیاد پر ہوتی ہے۔ ایک پھلی میں بالعموم ایک سے تین دانے ہوتے ہیں۔ بعض توانا اور بڑے ہوتے، بعض کمزور اور چھوٹے۔ زمین کے اندر یہ دانے دو ماہ میں پک کر تیار ہو جاتے ہیں۔ پکنے کی صورت میں اس کی بیلوںکو اکھاڑ لیا جاتا ہے۔ چار سے چھے ہفتوں کے دوران یہ مکمل طورپر خشک ہو جاتے ہیں۔
مونگ پھلی کے غذائی اجزا
اپنے مزاج کے اعتبار سے یہ پھلی گرم خشک ہے۔ لہٰذا ۱۰۰گرام مونگ پھلی میں غذائی اجزا کا تناسب حسب ذیل ہے:
فاسفورس ۳۵۰ ملی گرام، چکنائی ۱ئ۴۰ فیصد، فولاد ۸ئ۲ ملی گرام، کیلشیم ۹۰ ملی گرام، وٹامن ای ۴ئ۲۶۱ ملی گرام، لحمیات ۳ئ۲۵فیصد، ریشے ۱ئ۳فیصد، رطوبت ۰ئ۳فیصد، کاربوہائیڈریٹس ۱ئ۲۶فیصد اور معدنی اجزا ۴ئ۲فیصد۔ کچھ مقدار میں وٹامن بی کمپلیکس بھی پایا جاتا ہے۔۱۰۰گرام مونگ پھلی میں حراروں کی تعداد ۵۶۷ہوتی ہے۔
غذائی اور طبی اہمیت
مونگ پھلی میں دیگر پھلوں اور میوہ جات کی طرح بے شمار طبی اور غذائی فوائد مضمر ہیں۔ اس میں اعلیٰ درجے کی پروٹین وافر مقدارمیں موجود ہوتی ہے۔ اسی پروٹین کی بنا پر اسے خصوصی امتیاز حاصل ہے۔ ایک کلو گرام مونگ پھلی میں ایک کلوگرام گوشت کی نسبت زیادہ لحمیاتی اجزا پائے جاتے ہیں۔ جبکہ اتنی ہی مقدار میں انڈوں کے بالمقابل تقریباً اڑھائی گنا زیادہ پروٹین ملتی ہے۔ اسی طرح پنیر اور سویابین کے سوا دیگر کوئی بھی نباتات پروٹین کی مقدار کے سلسلے میں مونگ پھلی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس میںپائی جانے والی پروٹین متوازن ہوتی ہے۔
بطور غذا
مونگ پھلی کو اگر بغیر بھونے کھایا جائے، تو اسے خوب چبا کر کھائیے کیونکہ اس کو جس قدر زیادہ چبایا جائے، یہ اتنی ہی زیادہ زود ہضم ہو جاتی ہے۔ دوسری صورت میں یہ دیر ہضم ہے۔ یہ مونگ پھلی کی خامی ہے۔ لیکن بھون کر استعمال کرنے سے اس کی یہ خامی دور ہو جاتی ہے۔ اسے پکا لینے سے نشاستہ مزید قابل ہضم ہو جاتا ہے۔ اگر زیادہ پکانے کی زحمت سے بچنا ہو، تو اسے پیس کر آٹا بنا لیجیے۔
مونگ پھلی میں روغن وافر ہوتا ہے۔ اس لیے پیسنے سے یہ مکھن کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اسے کسی مقصد کے لیے استعمال کرنے سے پیشتر تھوڑا سا خوردنی نمک ضرور شامل کر لیجیے۔ اگر اس مکھن کا قوام زیادہ گاڑھا ہو تو اس میں پانی وغیرہ نہ ملائیے بلکہ پتلا کرنے کے لیے مونگ پھلی کا تیل ملا لیں۔
مونگ پھلی محض لذیز غذا ہی نہیں، یہ شفا بخش اثرات بھی رکھتی ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
موٹاپا
موٹاپا بنفسہ کوئی مرض نہیں، لیکن بہت زیادہ موٹاپے سے جسم کئی بیماریوں کو گھیر لیتی ہیں۔ مونگ پھلی کے استعمال سے موٹاپے میں کمی واقع ہوتی ہے۔ دوپہر کھانے سے کچھ دیر قبل مٹھی بھر مونگ پھلی (بھنی ہوئی) کھائیے ساتھ ہی بغیر چینی کے چائے یا کافی استعمال کیجیے۔ وزن میں رفتہ رفتہ کمی آ جائے گی۔ یہ نسخہ برتنے سے بھوک بھی لگتی ہے۔ نتیجتاً دیگر اغذیہ کے کم استعمال سے وزن بھی کم ہو جاتا ہے۔
ذیابیطس
اس عارضے میں مبتلا مریض اگر مونگ پھلی مناسب مقدارمیں استعمال کریں، تو انھیں افاقہ رہتا ہے۔ مریض اگر روزانہ ۶۰،۵۰ گرام مونگ پھلی کھا لیں، تو وہ غذائیت کی کمی سے محفوظ رہیں گے۔ بیشتر بدن کو درکار نایاسین کی مقدار بھی پوری ہوتی رہے گی۔
دانتوں اور مسوڑھوں کا علاج
دانتوں کی مضبوطی میں مونگ پھلی اکسیر ہے۔ اسے نمک کے ساتھ ملا اچھی طرح چبا کر کھایا جائے، تو مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں۔ یوں مضرت رساں جراثیم کا انسداد ہوتا اور دانتوں کا قدرتی رنگ برقرار رہتا ہے۔ مونگ پھلی کھانے کے بعد منہ پانی سے اچھی طرح صاف کر لیںتاکہ اس کے ذرات دانتوں میں نہ رہ جائیں۔
جریان خون اور نکسیر
بعض اوقات چوٹ لگنے سے زخم کی صورت خون مسلسل بہتا اور اسے روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مونگ پھلی کا متوازن استعمال جریان خون (ہیموفیلیا) کا کامیاب علاج ہے۔ حیض مقدار میں زیادہ آنے کے عارضے میں بھی مونگ پھلی مفید اثرات رکھتی ہے۔
چہرے کی تروتازگی
اس کا روغن حسن و جمال میں اضافے کے لیے مستعمل ہے۔ یہ بیرونی جلد کی نشوونما کرتا اور خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ جوانی میں چہرے پر ظاہر ہونے والے کیل مہاسوں، چھائیوں اور کیلوں کی پیدائش روکتا ہے۔ مونگ پھلی کے روغن میں مساوی وزن لیموں کا رس شامل کر لینے سے نتائج زیادہ بہتر اور حوصلہ افزا نکلتے ہیں۔ رات کو سوتے وقت یہ آمیزہ چہرے پر ملیے، تروتازگی نکھار اور شادابی آ جائے گی۔
متفرق امراض
مونگ پھلی میں بے شمار فوائد پوشیدہ ہیں۔ مثلاً اس میں بہ آسانی ہضم ہو جانے والا تیل کثیر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ یہ تیل جلد میں نرمی اور ملائمت پیدا کرتا ہے۔ معتدل طور پر سہل بھی ہے۔ ایسی خواتین جو بچوں کو دودھ پلا رہی ہوں، ان کے لیے شکر اور دودھ کے ساتھ مونگ پھلی کھانا عمدہ اور طاقت بخش غذا ہے۔ اس غذا میں ہر طرح کی چھوت روکنے کی صلاحیت ہے۔ ٹی بی اور یرقان کے مریضوں کے لیے یہ نادر روزگار شفابخش دوا ہے۔
استعمال میں احتیاط
یہ یاد رہے کہ مونگ پھلی کو غذا کی جگہ نہ دیجیے۔ بعض محققین کی رائے میں مونگ پھلی کے روزمرہ استعمال سے جسم میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو بھونی ہوئی مونگ پھلی کھانے سے الرجی ہو جاتی ہے۔ سانس کی تکلیف اور بالخصوص دمہ کے مریض مونگ پھلی کم کھائیں۔ البتہ اگر یہ مونگ پھلی نمک ملے پانی میںاُبال لیں‘ تو زیادہ نقصان سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ معدے کے عوارض میں مبتلا اور یرقان کے مریض بھی اس سے گریز کریں۔

مفید غذائیں

مفید غذائیں


چند  دن قبل ایک رسالے میں پڑھا کہ سفید چاول نہ کھائیے کیوں کہ اس میں غذائیت بخش اجزا کم ہوتے ہیں۔ جبکہ بھورے چاولوں میں معدنیات اور وٹامن زیادہ بتائے گئے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سفید چاولوں کی حیثیت متنازع ہے۔ کئی امریکی ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ سفید اور بھورے چاولوں کے درمیان بلحاظ غذائیت زیادہ فرق نہیں۔
بعض ماہرین غذائیت کے نزدیک تو سفید چاول بہتر ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ سفید چاول کھانے سے ہمارے جسم میں نائٹروجن زیادہ دیر تک موجود رہتی ہے۔ یہ گیس پھر ہمارے عضلات کومضبوط بناتی ہے۔ سفید چاولوں کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان میں شامل پوٹاشیم اور فاسفورس ہمارے جسم میں بخوبی جذب ہوتا ہے۔ جبکہ بھورے چاولوں میں موجود زائد ریشہ (فائبر) انھیں ہمارے بدن میں زیادہ مقدار میں جذب نہیں ہونے دیتا۔
سرخ گوشت
سفید چاول کی طرح سرخ گوشت کے متعلق بھی کئی منفی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ حالانکہ جدید تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ مچھلی، مرغ اور گائے بھینس کے گوشت میں بلحاظ غذائیت زیادہ فرق نہیں اور نہ ہی سرخ گوشت انسان کو کسی دوسرے گوشت کی نسبت نقصان پہنچاتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سرخ گوشت کھانے والے دیگر غیر صحت بخش عادات مثلاً سگریٹ نوشی، شراب نوشی، پھل و سبزیاں نہ کھانے وغیرہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ لہٰذا سرخ گوشت نہیں بلکہ یہی غیر صحت مند طرز زندگی انھیں متفرق بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سرخ گوشت انسانی بدن میں اچھے (ایچ ڈی ایل)کولیسٹرول کی مقدار بڑھاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ گوشت میں سٹیرک(Stearic) ایسڈ (سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈ کی ایک قسم) اور اولیک (Oleic) ایسڈ (قلب دوست مونو سیچو ریٹڈ فیٹ) ملتے ہیں۔ یہ دونوں ہمارے جسم میں اچھے کولیسٹرول کی سطح بڑھاتے ہیں۔ ڈاکٹر کیرول روسیٹ مشہور امریکی ڈاکٹر ہے۔ وہ کہتی ہے:
’’سرخ گوشت قلب و بدن کے لیے مفید ایسی چکنائیوں (Fats)کا مرکب ہے جو کسی اور غذامیں نہیں ملتیں۔ مگر یہ ضروری ہے کہ چربی سے پاک گوشت کھایا جائے۔‘‘
کھٹی کریم (Sour Cream)
مغربی کھانوں کی تیاری میں کھٹی کریم عام استعمال ہوتی ہے۔ یہ عام کریم کا خمیر اٹھا کر بنائی جاتی ہے۔ اس میں چکنائی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، اسی لیے ڈاکٹر کھٹی کریم سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ اتنی مضرصحت نہیں۔
وجہ یہ ہے کہ کھٹی کریم دیگر کریموں کی نسبت کم حرارے رکھتی ہے۔ مثلاً ایک بڑے چمچ مایونیز کی نسبت کھٹی کریم کی اتنی ہی مقدار نصف حرارے رکھتی ہے۔ نیز یہ ایک گلاس دودھ سے بھی کم سیچوریٹڈ چکنائی کی حامل ہے۔ لہٰذا معتدل مقدار میں کھٹی کریم کا استعمال مضرِ صحت نہیں۔
کافی
یہ مشروب بھی اسی وقت انسان کو فائدہ پہنچاتا ہے جب اُسے معتدل مقدارمیں نوش کیا جائے۔ مثلاً جدید تحقیق نے افشا کیا ہے کہ مردو زن روزانہ دو پیالی کافی پئیں تو امراضِ قلب چمٹنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ نیز ذیابیطس قسم۲سے بھی بچائو ممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص روزانہ کافی کی چار پانچ پیالیاں چڑھانے لگے، تو الٹا نقصان ہوتا ہے۔ وہ پھر مختلف بیماریوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔
سبزو سرخ مرچ
پچھلے ماہ ہانگ کانگ یونیورسٹی کے محققوں نے ایک انوکھا تجربہ کیا۔’’انھوں نے مسلسل چار ہفتے تک دس چوہوں کو ایسی غذا کھلائی جس میں کاپسینیوئڈز (Capsaicinoids) کیمیکل موجود تھے۔ یہی کیمیکل سرخ و سبز مرچ کو تیز ذائقہ عطا کرتے ہیں۔
جب چار ہفتے بعد چوہوں کا طبی معائنہ ہوا، تو ماہرین کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ان میں بُرے کولیسٹرول LDL) کی سطح کم ہوگئی۔ جب وجہ جاننے کی سعی ہوئی، تو پتا چلا کہ مرچوں کے کیمیکل کاپسینیوئڈز اس جین کو کھل کر کام نہیں کرنے دیتے جو شریانوں کو سکیڑ دیتے ہیں۔ نتیجتاً ہمارے عضلات پرُسکون رہتے ہیں اور قلب کی طرف خون کا بہائو عمدہ رہتا ہے۔ چناںچہ اپنی روزمرہ غذا میں ایک دو مرچیں شامل کیجیے اور ہارٹ اٹیک سے بچے رہیے۔
غذائوں کو زیادہ غذائیت بخش بنائیے
ذیل میں ایسی آسان تراکیب پیش ہیں جن کے ذریعے آپ بعض غذائوں کو زیادہ مفید بناسکتے ہیں۔
(۱)گریپ فروٹ کو
اچھی طرح چبائیے
وٹامن سی سے بھرپور گریپ فروٹ اپنے اندر کارآمد ضدِ تکسیدی مادے رکھتا ہے۔اب ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ یہ پھل اچھی طرح چبا یا جائے، تو زیادہ ضدِ تکسیدی مادے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ پھل موٹاپا کم کرنے میں بھی مفید پایا گیا ہے۔
(۲)سلاد ایک دن
پہلے بنائیے
وجہ یہ ہے کہ یوں سلاد میں زیادہ ضدِ تکسیدی مادے جنم لیتے ہیں۔ طریق کار یہ ہے کہ سلاد کاٹ کر پلاسٹک بیگ میں رکھیے اور فریج میں رکھ دیجیے۔ ممکن ہو، تو بیگ میں ٹشو پیپر رکھ دیجیے تاکہ زیادہ سے زیادہ نمی جذب ہو۔ اگلے دن سلاد استعمال کر لیجیے۔
(۳)زرد دانوں والی
مکئی کھائیے
تقریباً سارا سال دستیاب رہنے والا اناج، مکئی بہت مفید غذا ہے۔ یہ معدنیات اورحیاتین کی کثیر مقدار رکھتا ہے۔ ان میں وٹامن بی، میگنیشیم، مینگنیز، فاسفورس، زنک، تانبا اور فولاد نمایاں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گہرے رنگ کے دانوںوالی مکئی زیادہ مفید ہوتی ہے کیوں کہ اس میں حیاتین اور معدنیات وافر مقدار میںموجود ہوتی ہیں۔
(۴)شاخ گوبھی صحیح
طرح ذخیرہ کیجیے
اب اکثر پاکستانی دکانوں میں شاخ گوبھی (Broccoli)بھی دکھائی دینے لگی ہے۔ یہ سبزی انسانی جسم میں وٹامن ڈی کی کمی دور کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔نیز جدید طبی تحقیق نے دریافت کیا ہے کہ شاخ گوبھی ہمیں سرطان (کینسر) سے بھی بچاتی ہے۔
شاخ گوبھی کو محفوظ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اُسے پلاسٹک بیگ میں رکھیے۔ پھر بیگ میں کانٹے سے مناسب فاصلے پر چھوٹے چھوٹے سوراخ کردیجیے۔ پھر یہ بیگ فریج میں رکھیے۔ یوں شاخ گوبھی نہ صرف تازہ رہے گی بلکہ اس کی غذائیت بھی بڑھ جائے گی۔
پروٹین محض گوشت سے نہ لیں
انسان کو زندہ رہنے کے لیے پروٹین کی بھی ضرورت ہے۔ یہی بافتوں (ٹشوز)کی تعمیر کرتے اور بطور ایندھن کام دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ غلط نظریہ پھیل چکا کہ پروٹین صرف گوشت اور دودھ ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ حالانکہ تحقیق سے ثابت ہوچکا کہ خصوصاً سرخ گوشت کا حد سے زیادہ استعمال نقصان دہ ہے۔
انسانی جسم میں سرخ گوشت کی زیادتی سے نہ صرف بینائی متاثر ہوتی ہے بلکہ عمر بھی گھٹ جاتی ہے۔ نیز انسان مختلف بیماریوں میںمبتلا ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف دالوں اور سبزیوں سے حاصل کردہ پروٹین وزن گھٹاتی نیز دیگر فوائد پہنچاتی ہے۔ واضح رہے کہ انسان کو اپنے وزن کے حساب سے فی کلو۱؍گرام پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔لہٰذا وہ درج ذیل پودوں سے بآسانی پروٹین پاسکتا ہے:
سویا پھلی
دنیائے نباتات میں یہی پھلی(سویابین) سب سے زیادہ پروٹین کی حامل ہے۔ ایک پیالی (۱۷۵گرام) پکی سویا پھلی کھانے سے ہمیں ۲۸گرام پروٹین ملتی ہے۔ نیز یہ پھلی وٹامن کے علاوہ رِبوفلاوین، فولاد، فاسفورس، میگنیز جیسے اہم مادوں کا بھی خزانہ ہے۔ یاد رہے، ۸۵گرام(ڈیڑھ چھٹانک) گوشت کھانے سے ہمیں ۲۸گرام پروٹین حاصل ہوتی ہے۔
سویا پھلی کے علاوہ دیگر اقسام کی پھلیاں مثلاً سیاہ پھلی، چنا، دالیں، اور مٹر بھی پروٹین کے حامل ہوتے ہیں۔ ان میں فی پیالی ۱۴تا ۱۹گرام پروٹین پائی جاتی ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ انھیں کھا کر پروٹین پائیے، نہ کہ سرخ گوشت کھا کھا کر اپنی صحت برباد کرلیں۔
مونگ پھلی
پھلوں اور دالوں کے بعد مغزیات زیادہ پروٹین رکھتے ہیں اور ان میں پہلا نمبر مونگ پھلی کا ہے۔ اگر آپ صرف دو چمچ مونگ پھلی کھالیں، تو آپ کو ۸گرام پروٹین حاصل ہوگی۔ لہٰذا سردیوں میں آدھی پیالی مونگ پھلی کھائیے اور اتنی پروٹین حاصل کیجیے جتنی مچھلی کھانے سے ملتی ہے۔
عام سبزیوں میں پتے والی سبزیاں مثلاً پالک اور شاخ گوبھی بھی پروٹین کی حامل ہیں۔ تاہم ان سے فی پیالی چار پانچ گرام پروٹین ہی ملتی ہے۔
آنکھوں کے لیے مفید غذائیں
آپ نے سنا ہوگا کہ گاجر، نارنجی رنگ کے پھل اور پتے والی سبزیاں بینائی کے لیے مفید ہیں۔ یہ بات سچ ہے۔ گاجر وٹامن اے کی ایک قسم بیٹا کروٹین سے مالا مال ہے۔ یہ حیاتین آنکھ کے پردے (Retina) اور دیگر حصوں کی حفاظت کرتا اور انھیں تندرست رکھتا ہے۔ اسی طرح پتے والی سبزیوں میں دواہم ضدِ تکسیدی مادے… یوٹن اور زیکستھین ملتے ہیں۔ یہ مادے آنکھوں کو ایک خطرناک بیماری ’’میکولر ڈی جنریشن ‘‘ Macular Degenration)) سے محفوظ رکھتے ہیں۔
انڈا بھی بصارت کے لیے مفید غذا ہے۔ یہ بھی درج بالا دو ضدِ تکسیدی مادے رکھتا ہے۔ نیز وٹامن سی کے حامل پھل(مالٹا، کنو، اسٹابری وغیرہ) اور چربیلی مچھلیاں بھی بینائی کو تقویت دینے والے غذائی مادے رکھتی ہیں۔
دو سنہرے غذائی اصول
پہلا اصول یہ ہے کہ کبھی تنہا پھل نہ کھائیے۔ وجہ یہ ہے کہ پھل کاربوہائیڈریٹ سے پُر ہوتے ہیں۔ لہٰذا محض پھل کھانے سے خون کی شکر پہلے بڑھتی اور پھر گھٹ جاتی ہے۔ اسی لیے صرف پھل کھانے کے ایک گھنٹے بعد عموماً بھوک لگتی اور تھکن محسوس ہوتی ہے۔ اس حالت سے بچنے کے لیے پھل کو پروٹین یا صحت مند چکنائی رکھنے والی غذاکے ساتھ کھائیے۔ یہ دونوں غذائی عناصر ہاضمے کا عمل سست کرتے اور خون کی شکر کو بے قابو نہیں ہونے دیتے۔ کئی پھلوں کے ساتھ دہی کا استعمال مفید پایا گیا ہے۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ کھانوں کے ساتھ کیچ اپ اور اسی قسم کی رنگ برنگ چٹنیاں کبھی کبھی استعمال کیجیے۔ اس کے بجائے مرچ، ادرک اور لہسن سے بنی چٹنی کھائیے۔ نیز سالن میں ہلدی، دار چینی، کالی مرچ استعمال کیجیے۔
دراصل مسالوں اور جڑی بوٹیوں کے شامل کرنے سے نہ صرف کھانا چٹ پٹا ہوتا ہے بلکہ وہ صحت بخش بھی بن جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ غذائی اشیا کئی مفید مادے رکھتی ہیں، جو ہمیں مختلف امراض مثلاً بلند فشار خون سے بچاتے اورہمارے مامون نظام کو مضبوط بناتے ہیں۔
رات نہیں شام کو کھانا کھائیے
میرے دادا شام ۶بجے ہی کھانا کھالیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوں انسان صحت مند رہتا ہے۔ مگر ہم بچوں کو ان کی منطق سمجھ نہ آئی۔ اب سائنس نے دریافت کر لیا ہے کہ رات کے بجائے شام کو طعام کرلینا کیوں مفید ہے۔
امریکا کی وینڈر بلٹ یونیورسٹی کے محققوں نے انوکھا تجربہ کیا۔ انھوں نے دس مرد و زن کو چھے ماہ تک رات ۹بجے کھانا کھلایا۔ ساتھ ساتھ اُن کا طبی معائنہ بھی ہوتا رہا۔ چھے ماہ بعد انکشاف ہوا کہ ان لوگوں میں انسولین مزاحمت (Insulin resistance)جنم لے چکی۔
جب ہم کھانا کھائیں، تو ہمارے خون میں شکر جنم لیتی ہے۔ تب ایک ہارمون، جسم کی بافتوں (ٹشوز) کو حکم دیتا ہے کہ وہ شکر جذب کرلیں تاکہ اُسے بطور ایندھن استعمال کیا جاسکے۔ جو شکر جذب نہ ہوسکے، وہ چربی (Fat) بن جاتی ہے۔ لیکن جب کسی بھی وجہ سے بافتیں انسولین کے حکم پر عمل نہ کریں اور شکر کو انسانی جسم میں دندناتا چھوڑ دیں، تو یہی حالت انسولین مزاحمت کہلاتی ہے۔ اسی حالت کے باعث انسان پھر ذیابیطس اور امراضِ قلب میں مبتلا ہوتا ہے کیونکہ زائد چربی وبال جان بن جاتی ہے۔
ماہرین کے نزدیک انسانوں میں جب یومیائی گھڑی (Circadian Clock)خراب ہوجائے، تو انسولین مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ یومیائی گھڑی ہی انسان کو سونے یا جاگنے کا سگنل دیتی اور دیگر جسمانی افعال انجام دیتی ہے۔ نتیجتاً انسان پرچربی چڑھنے لگتی ہے۔ ماہرین اب یومیائی گھڑی خراب ہونے کا معما سمجھنے کی سعی کررہے ہیں۔
بہرحال تجربے سے ثابت ہوگیاکہ اب محض یہ نہ دیکھیے کہ کیا شے کھانی ہے بلکہ اس امر کو بھی مدِ نظر رکھیے کہ کب کھانی ہے۔ جو انسان نیند لینے کے وقت کھانا کھانے لگے، وہ فربہ ہونے کے لیے تیار رہے۔ جبکہ دن میں کھانا کھانے سے بیشتر غذا توانائی میں بدل جاتی ہے۔

Home


Movies